پیر، 27 جون، 2016

زکوٰۃ کے جدید مسائل



بسم اللہ الرحمن الرحیم

زکوٰۃ کے جدید مسائل

           دور حاضر میں سونے چاندی کے سکوں ک رواج بالکل ختم ہوچکا ہے اور سارے عالم میں لین  دین اور تجرت وغیرہ کامکمل انحصار اور دارومدار نوٹوں پر ہے، لہٰذا علماء کرام کا فیصلہ ہے کہ کسی کے پاس سونے یا چاندی کے نصاب کی قیمت کے بقدر رقم (بشکل نوٹ وکرنسی) موجود ہو، اور اس پر سال گذر جائے تو اس میں چالیسواں حصہ 2.5 فیصد زکوٰۃ واجب ہے۔
(الفقہ الاسلامی 2/772)

شیئرز و عمارت پر زکوٰۃ:

شیئرز پر ہر سال کے اختتام پر اس کی حالیہ قیمت اور نفع دونوں کے مجموعے پر 2.5  فیصد زکوٰۃ واجب ہے۔ یہ حکم تجارتی شیئرز کا ہے ۔
 اگر کسی کارخانہ اور فیکٹری میں چند حضرات شریک ہوں تو عمارت اور فیکٹری میں استعمال ہونے والے آلات اور مشنیریوں کو چھوڑ کر شرکت کی جو قیمت ہوگی اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
کرایہ کی عمارتوں اور گاڑیوں وغیرہ کی زکوٰۃ:
وہ عمارتیں جن سے کرایہ کے طور پر آمدنی حاصل ہوتی ہو، فیکٹری، جہاز، ہوائی جہاز اور موٹر گاڑیاں جو برائے کرایہ ہوں اور جانوروں کا فارم یا پولٹری فارم جیسے آمدنی کے وسائل میں براہ راست زکوٰۃ واجب نہیں، بلکہ ان سے ہونے والی آمدنی میں زکوٰۃ  واجب ہے بشرط یہ کہ وہ بقدر نصاب ہو(یعنی سونے یا چاندی کے نصاب کی حالیہ قیمت کے برابر ہو) اور ان پر مکمل ایک اسلامی سال گذر جائے، اس صورت میں اس پر 2.5 فیصد زکوٰۃ واجب ہے۔

صاحبِ پیشہ اور نوکری کرنے والوں کی زکوٰۃ:

        جو اپنے پیشہ کی بنیاد پر آزادانہ کماتے ہیں جیسے ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، درزی اور بڑھئی وغیرہ یا کہیں تنخواہ پر اس طرح گذر بسر کرتے ہیں، ان کی آمدنی بھی جب سونے یا چاندی کے نصاب کی قیمت کوپہنچ جائے اور اس پر سال گذر جائے تو اس میں 2.5 فیصد زکوٰۃواجب ہے۔(الفقہ الاسلامی 2/866) (یعنی مکمل آمدنی پر نہیں بلکہ اپنے اخراجات وغیرہ کے بعد بچی ہوئی رقم بقدر نصاب یا زائد ہو اور اس پر سال گذر جائے، تب اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی۔ نصاب یا سال کی تکمیل سے قبل جو بھی رقم خرچ ہوگی، اس میں زکوٰۃواجب نہیں ہے،اسی طرح نصاب کے بقدر ہونے کے بعد سال کی تکمیل سے پہلے نصاب گھٹ جائے تو بھی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔)

پراویڈنٹ فنڈ کی زکوٰۃ کے چند مسائل:

1
۔ سرکاری ، نیم سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں ملازمین کی ہر ماہ تنخواہ میں سے کچھ رقم کاٹ لی جاتی ہے اور اس پر ادارہ ہر ماہ کچھ رقم کا اضافہ کرتا ہے پھر مجموعہ پر کچھ سالانہ بنام سود جمع کرتا ہے، شرعاً تنخواہ میں سے جو رقم کاٹی جاتی ہے اس کی اصل تنخواہ ہے اور زکوٰۃ اتنے ہی روپیہ پر فرض ہوسکتی ہے اور باقی دونوں رقم ادارہ کی طرف سے بطور امداد کے ہے لہٰذا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں۔

نوٹ:- اگر اختیار سے فنڈ میں رقم کٹوائی جائے تو جو رقم ادارہ بنام سود جمع کرے گا تو وہ سود ہی ہوگا۔
2
۔ مذکورہ بالا مسئلہ اس وقت ہے جب کہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم ملازم نے اپنی طرف سے کسی شخص یا کمپنی کی تحویل میں نہ دلوائی ہو بلکہ ادارہ نے اپنے تصرف میں رکھا ہو یا ادارے نے کسی شخص یا کمپنی کو دی تو (ادارے نے)اپنے طور سے اپنی ذمہ داری پر دی ہو ،اگر ملزم نے اپنی ذمہ داری پر یہ رقم کسی شخص یا بنک یا بیمہ کمپنی یا کسی اور مستقل کمیٹی مثلاً ملازمین کے نمائندوں پر مشتمل بورڈ وغیرہ کی تحویل میں دلوادی ہو تو یہ ایسا ہے جیسے خود وصول کر کے اسکی تحویل میں دے دی ہو لہٰذا پوری رقم پر زکوٰۃ واجب ہوگی، اب اگر بینک یا کمپنی وغیرہ اس رقم پر کچھ سود دیں تو شرعا بھی سود ہوگا جس کا لینا ملازم کے لئے قطعاً حرام ہے، فنڈ خواہ جبری ہو یا اختیاری۔

3
۔ پراویڈنٹ فنڈ میں جو رقم تنخواہ سے لازمی طور پر کٹتی ہے وہ ادارہ کے ذمہ قرض کے حکم میں ہے اور قرض واپس ملنے کی امید ہو تو اس ہر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے لہٰذا اپنی تنخواہ سے جمع شدہ رقم اور اپنے پاس جمع شدہ رقم ملا کر نصاب تک پہنچ جائے اور سال پورا ہوجائے تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔

نوٹ:- حکومت کی طرف سے اضافہ شدہ رقم پر جب تک قبضہ نہ ہوجائے اور قبضہ کے بعد سال نہ گذر جائے تو زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔

نوٹ:-جو لوگ حکومتی ٹیکس کی بچت کے لئے لائف انشورنس کراتے ہیں اور جو رقم جمع کرتے ہیں اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اسلئے کہ وہ امانت کے حکم میں ہے۔

پگڑی و ڈپازٹ رقم پر زکوٰۃ:

 
مکان یا دوکان کرایہ پر دیتے وقت مالک ایک رقم ڈپازٹ کے نام سے لیتاہے اور مکان کی واپسی کے وقت وہ رقم واپس کی جاتی ہے چونکہ وہ ایک امانت یا قرض کے حکم میں ہے لہٰذا رقم دینے والے پر اس کی زکوٰۃ ضروری ہے، لینے والا اگر اس کو بطور امانت رکھ دے یاخرچ کردے تو لینے والے پر زکوٰۃ نہیں ہے۔

       پیشگی کرایہ دینے والے پر زکوٰۃ نہیں ہے لینے والے پر زکوٰۃ اس وقت واجب ہوگی جب کہ اس پر سال گذر جائے۔

            کبھی فون بک کرتے وقت دس ہزار یا تیس ہزار روپئے ڈپازٹ کے طور پر جمع کیا جاتا ہے وہ پیشگی کرایہ ہوتا ہے لہٰذا اس پر بھی زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔
            پگڑی کی رقم حق استعمال کی قیمت ہوتی ہے لینے والا اس کا مالک ہوجاتا ہے لہٰذا اس کی زکوٰۃ نہیں۔
سیونگ سرٹیفکٹ پر زکوٰۃ:-
            آج کل بعض سرکاری کام  کی انجام  دہی کے لئے سیونگ سرٹیفکٹ لینا لازمی ہوتا ہے۔ سیونگ سرٹیفکٹ کی رقم بھی قرض کے حکم میں ہے لہٰذا اگر ہماری طرف سے جمع شدہ رقم بقدر نصاب ہو یا ہمارے پاس کی جمع شدہ رقم ملا کر بقدر نصاب ہوجائے تو زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے اس سرٹیفکٹ پر ملنے والی سود کی پوری رقم کو بلا نیت ثواب صدقہ کرنا واجب ہے۔(ماخوذ از کتاب الزکوٰۃ، مولانا محمد ایوب ندوی الشافعی)
(مأخوذ تحفۃ الباری فی الفقہ الشافعی   جلد 1 کتاب الزکوٰۃ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں